عیسوی سال کی مبارک بادی کا حکم
سوال:کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے کہ اکثر لوگ کہتے ہیں عیسوی سن ہمارا نہیں ہے اور جنوری سے ہمارا نیا سال شروع نہیں ہوتا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نئے سال کی مبارک باد کے ساتھ ساتھ اللہ پاک کی تعریف اور لوگوں کو اصلاح کی بات کہتا ہے یعنی کہ ہمیں خوش اس وجہ سے ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نے ہمیں زندگی ہے 2018 میں بھی اور اب ہمیں آخرت کی فکر کرنی چاہیے (الدنیا مزرعة الآخرة اس کے ساتھ یہ حدیث بھی، اور افسوس ہمیں اس وجہ سے ہونا چاہیے کہ ہماری زندگیوں میں سے یہ بھی ایک اور کم ہوگیا ہم کچھ نہیں کرپائے آخرت کے لیے اور ہم قبر کے اور قریب ہوگئے ہیں اس طرح لکھنا جائز ہے یا ناجائز اور کیا اس طرح الفاظ لکھنا صحیح ہے یا غلط میرے سبھی دوستوں سے گزارش ہے کہ مجھے یکم جنوری یعنی انگریزی نئے سال پر ہر گز مبارک باد نہ دیں۔اس وجہ سے کہ میں (الحمداللہ )مسلمان ہوں اور میرا نیا سال محرم سے شروع ہوتا ہے اس سے شاید مجھے یہ لگتا ہے کہ جو لوگ ایسا کام کرتے ہیں یعنی مبارکباد دینا تو شاید یہ وہ مسلمان نہیں مہربانی کرکے جلد از جلد رہنمائی فرمائیں۔
جواب نمبر: 158182
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 458-455/N=5/1439
اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اور شریعت کے بہت سے احکام میں اسلامی سال، مہینہ کا ہی اعتبار کیا گیا ہے؛ لیکن ہمارے بہت سے دنیوی معاملات میں مختلف وجوہ سے عیسوی سال کا حساب رائج ہے اور فی زماننا عیسوی سال کی مبارک بادی غیر قوموں کا شعار یا ان کی مذہبی عمل بھی نہیں ہے؛ اس لیے عیسوی سال کی مبارک بادی کو کفر وشرک یا حرام نہیں کہا جاسکتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند