اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش۔۔۔ا!! مگر کیسے۔۔۔۔؟؟؟
اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش۔۔۔ا!!
مگر کیسے۔۔۔۔؟؟؟
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر اعلیٰ ترین عبادت،بلکہ عبادت کا بھی مغز اور ،
ایمان کی روح ہے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا ایک ایک گوشہ اور واقعہ “سرمہ چشم بصیرت”ہے۔۔۔
مثلاً،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حج،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جہادی تدبر،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز،روزہ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت،زہد،تقوی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یقین کامل اللہ رب العزت پر،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت،رحمت،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خشیت،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد،علم اور فہم۔۔۔
الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا امت کے لئے زندگی گزارنے کا بہترین نمونہ اور اکسیر ھدایت ہے،
جس کا سیکھنا،سکھانا،اس کا تذکرہ کرنا،اور اس کی دعوت دینا امت پر اہم ترین “فریضہ” ہے۔۔
آپ تو آپ ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اطہار،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام پاک وغیرہم،
یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب چیزوں مثلاً،
آپ کے ہتھیار،
آپ کا لباس،
آپ کے گھوڑے،
آپ کی مختلف سواریاں۔۔
ان سب کا تذکرہ بھی نیکی اور عبادت ہے۔۔۔
لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں کیا اور کیسے ان کا تذکرہ کرنا ہے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور سیرت طیبہ کو بیان کرنے کے دو طریقے ہیں ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہمارے اسلاف رحہم اللہ اجمعین سے ملتے ہیں،
1_صحابہ کرام و اسلاف نے سیرت طیبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک ادا کو اپنی زندگی کے ظاہر و باطن پر اس طرح سجایا کہ،
اپنی صورت وسیرت ،چال ڈھال،اخلاق و کردار وگفتارکو بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں ڈھال دیاتھا،
ان کی ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا کہ :
“یہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور محبت کرنے والے ہیں”
اور حقیقت میں اسی کو “اتباع نبوی “کہتے ہیں کہ ہم( اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور زندگی کا اہم ترین شوق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقالی کو بنالیں۔۔۔)
2_دوسرا طریقہ یہ تھا کہ صحابہ کرام و اسلاف کی عملی زندگی تو غلامی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینہ دار تھی،
لیکن انہوں نے ہرہر لمحہ اور ہر ہر مجلس و محفل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تذکروں سے مزین کیا کہ،
ہر خوشی،
غمی،جلال و جمال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و کمالات کا اس طرح سے کیا کہ مردہ قلوب کو ژندہ کردیا،
اور آج بھی ایسے حضرات مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں،
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے ان دونوں طریقوں پر عمل پیرا ہیں۔۔
یہی وجہ ہے کہ ان کا ہر روز “روز عید”،
اور ہر رات “شب قدر” تھی۔۔
اور یہی اصل “عشق” ہے،
ورنہ عشق کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی بن کر رہ جاتا ہے۔۔
ہمارے اسلاف نے کبھی عشق محمدی کا دعویٰ نہیں کیا،
بلکہ خود کو ملامت ہی کرتے رہے کہ:
عشق و تعلق کا حق ادا نہیں ہوا”
بحمد اللہ آج بھی اس مزاج کے خوش نصیب موجود ہیں،
مگر “اقلیت” میں ہیں،
جبکہ “اکثریت” میاں مٹھوؤں کی ہے۔۔۔
آج ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو کھرچ کھرچ کر نکال باہر کردیا ہے،
اور اپنی اس محنت پر فخر بھی کرتے ہیں،
اور جو اسلاف کے ذوق کو اپناتے ہیں،انہیں بدتہذیبی اور رجعت پسندی اور ترقی کی دشمنی کے طعنے دے کر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔۔۔
اور معاذ اللہ “کفر” تک کہ فتوے لگا دیئے جاتے ہیں۔۔۔
حالانکہ جب سے ہم نے اپنے اسلاف کے طریقے کو چھوڑا اس کے ساتھ ہی یہود ونصاریٰ کی تہذیبوں نے ہمارے سینوں میں جگہ بنالی۔۔
ہم نے عیسائیوں کی دیکھا دیکھی “عید میلاد النبی” منانا شروع کردیا،
اور اس حرکت و بدعت کو “عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم” کے خوبصورت نام سے متعارف کروا دیا ۔۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپناتے ،
ہم “منانا” شروع کردیا۔۔
یاد رکھیں،
اسلام نے ہمیں ان راہوں پر نہیں ڈالا،
اور نا ہی اس طریقے کو پسند فرمایا ہے۔۔
اس ناپسندیدگی کی سب سے بڑی دلیل خود “امام الانبیاء” صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی ہے۔۔
نا ہی خود ولادت کا دن منایا،
نا اپنے سے پہلے کسی مقدس نبی کا کوئی دن منایا،
نا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں خلفائے راشدین نے ایسا کیا،
نا ہی کسی ادنیٰ سے بھی صحابی ،
تابعین و تبع تابعین نے ایسا کچھ اہتمام کیا۔۔
حاصل کلام یہ ہوا کہ ہم ان باتوں پر دل سے غور وفکر کریں،
اور خود بھی اور دوسروں کو بھی ان تمام افعال سے باز رکھیں،
اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اسلاف کی تعلیمات کے مطابق اوپر بیان کئے گئے دونوں طریقوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہیں۔۔
اللہ رب العزت ہمیں سننے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
خوش رہیں۔۔۔۔خوشیاں بانٹیں۔۔